ملا ہے جب  سے  ايس ايم ايس  پيارے کہ چھٹی  آرہے  ہو تم
مر ے  خوابوں  ميں  صبح  و  شام اکثر  چھا  رہے   ہو   تم
جب   آؤ  گے  وہ  دن   ميرے   لئے   عيد   کم  نہيں  ہو گا
عجب  منظر   ميری  آنکھوں   پيارے  تيری   ديد   کا   ہو گا
وزنی سے  ايک  دو  بيگ تيرے  پيارے  ہاتھوں  ميں  ہونگے
اٹيچی  کيس  بھی  تيرے  ساتھ  يقيناً  دو  تين ضرور  ہونگے
ايل سی ڈی  تو ڈبے سے ہی  پہچان  جاؤں  گی  ميرے  سرکار
جرنيٹر  بھی  آگر  لے  آؤ  تو  مان  جاؤں  گی  ميرے  سرکار
ميں    ايرپورٹ   پر   آؤں   گی    اپنی   جان    کو   لينے
ٹرک  بھی   ساتھ    لاؤں   گی    اپنے   سامان   کو   لينے
ميرے  ٹھاٹھ   سب  ديکھيں گے  تو   يہ  دل   مسکرائے  گا
کھليں  گے  اٹيچی  کيس  اور  بيگ   تو  دل     گنگنائے   گا
بہاروں   پھو ل  بر ساؤ  مرا  محبو ب  دبئی  سے  آيا   ہے
نوکيا  موبائل  کا  نيا ماڈل  ميرے  لئے  بہت  خوب  لايا  ہے
مجھے تو  کچھ  نہيں  چاپيے  پر  دنيا داری  تو  رکھنی   ہے
تماری  عزت تو آخر اس دنيا  ميں مجھے ہي تو  رکھنی   ہے
بادام  ،  پستے اور  کا جو  ميرے   لئے    بھی   ضرور لانا
سستے شيمپو  اور  پرفيوم  دينے  دلانے  کو بھی ضرور  لانا
ڈبل والا  اسپين  کا  کمبل  نيلے  رنگ  کا اس  بار تو  لے  آنا
اگر  گنجائش  ہو  وزن  کی  فرانس  کا  ڈنر سيٹ بھی لے آنا
ميری  بہن  جو  ہے  سالی  تماری   بھول   اسکو   نہ  جانا
ايک   چين  دس  گرام  سونے  کی  اسکو   بھی  دے   دينا
کيا   لکھا   ہے  يہ  ويز ے  کا  آخری  سال   ہے
دبئی   ميں  بس   تمارا   يہی   آخری   سال   ہے
خدا  کے  واسطے  ميری  جان  ايسا  نہ   تم   سوچو
کرو  گے  کيا  يہاں  آکر  مير ے   سرکار  ذرا  سوچو
ابھی  تو  ڈيفينس  ميں  بنگلہ  نيا  بنانا  ہے
اس  ميں  سونی  کا  ہوم   ٹھيٹر   لگانا  ہے
کيا کيا  حسرتيں  ہيں  ميرے  صنم  ميرے  دل  ميں
کچھ  دن  ميں بھی تيرے ساتھ  گھوموں  دبئی  ميں
جدائی سيہ  لوں  گی  بچوں کے  مستقبل  کے  خاطر
اچھے  گھر  اور  ٹيو ٹا  اے  سی   کار   کے  خاط

ميرے سرتاج  ميری باتوں پر غور کر لينا
تين  سال  کا  ويزہ   تم  اور  لگوا  لينا
دعا  ہے  ميری  اپنے  رب  سے  ہر دم
اکاؤنٹ  ميں  ہوں  تيرے  لاکھوں  درھم
خدا حافظ  ميرے  جانی  ايس ايم ايس  جلدی  کر  دينا

ميرے ليے کيا  کيا  لاؤ   گے سب   کچھ   لکھ    دينا

 اٹھارويں ترميم پارليمنٹ اور عد ليہ

  
نغمہِ سحر  
آئين کي جو حالت ڈکٹيٹروں نے بنا دی تھی اور آئين کو چوں چوں کا مربہ بنا ديا تھا اس کو ٹھيک کرنے ميں تقريباً آٹھ ماہ سے زائد عرصہ لگا جس ميں 101 تراميم پر شق وار غور و خوص کے بعد اٹھارويں ترميم کی شکل ميں پارليمنٹ ميں پيش کيا گيا جس کو پارليمنٹ نے اتفاقِ رائے سے منظور کر ليا اور اب صدر ممليکت کے دستخط کے بعد آئين پاکستان کا حصہ ہے
اب وہ عناصر جوايسا آئين چاہتے ہيں جس ميں جب چاہيں اپنی مرضی کا مطلب نکاليں آئين بھی رہے اور ڈکٹيٹر بھی رہے اور ان کے مفادات بھی پورے ہوں طرح طرح کی بولياں بول رہے ہيں اور ايسی بدگمانياں پيدا کر رہے ہيں جيسے آئين سے کوئی مقدس اور متعبرک باتيں نکال کر نعجس اور ناپاک باتيں شامل کردی ہيں
پہلے ميڈيا پر شور مچايا يہاں پر جب مدلل اور بھر پور جواب ملا تو ہزارہ کا رخ کيا وہاں بھی تيزی سے انکے غبارے ميں سے ہوا نکل گئی اب ان عناصر کا پڑاؤ عدليہ ميں ہے يہاں پر يہ اپنا پورا زور لگائيں گے اب عدليہ ان کا سہارہ بنتی ہے يا نہيں اگر عدليہ نے ان عناصر کو سہارہ ديا اور پارليمنٹ کے بنائے ہوئے آئين ميں کوئی تبديلی کی يا کسی شق کو منسوخ کيا تو يہ ايسا سوراخ ہوگا جو ڈکٹيٹروں کو آنے کا راستہ دے گا جو آذاد عدليہ کے کيئے بھی باعثِ نقصان ہو گا جيسا کہ ماضی ميں ہوتا رہا ہے ڈکٹيٹر نے پريشر ڈال کر عدليہ کے ذريعے آئين ميں تبديلی کروانے کا اختيار حاصل کيا کئی شقوں کو منسوخ کروانے کی سند لی اگر عدليہ نے آئين ميں تبديلی ، منسوخی يا کسی لفظ کے معنی اور مفہوم بدلنے کا اختيار اپنے ہاتھ ميں ليا تو يہ ڈکٹيٹر کے بچنے کا ذريعہ بنے گا۔پھر ڈکٹيٹر آئے گا پی سی او نافذ ہوگا جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائيں گے جو نہيں اٹھائے گا وہ گھر جائے گا ڈکٹيٹر سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے باوجود اگر کبھی انکار کيا تو گريباں اور بالوں سے پکڑ کر گاڑی ميں ڈال ديا جائے گا
 پارليمنٹ ہی آئين کی خالق ہے اور يہ اسی کا اختيار ہے کہ آئين بنائے ترميم کرے يا کسی شق کو معطل کرے کسی دوسرے کو يہ حق نہيں کے وہ پارليمنٹ کا اختيار استعمال کرے اگر کوئی ايسا کرے گا تو يہ خلاف آئين اور تصادم کا راستہ ہوگا جس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا اس وقت جمہوريت نوزائدہ ہے اسکو طاقت اور حوسلہ بڑھانا سب کی زمے داری ہے ۔
اپنی مفاہمت ، مصالحت کی پاليسی کی وجہ سے سياسی جماعتيں پارليمنٹ کے لئے نہيں لڑيں گيں تو ان کی وہ ہی حالت ہوگی جو ماضی ميں ہوئی تھيں ۔جلاوطنی
يہ اب نہيں ہونا چاہيے کہ آئين بھی ڈکٹيٹر بھی ايک ساتھ ۔
پارليمنٹ نہيں تو آئين نہيں ۔آئين ہے تو ڈکٹيٹر نہيں ۔آئين ہے تو سسٹم ہے سسٹم مظبوط ہے تو استحکام ہے استحکام ہے تو ترقی ہے ترقی ہوگی تو مسائل حل ہونگے مسائل حل ہونگے تو عام آدمی کا فائدہ ہوگا اور جب عام آدمی کا فائدہ ہوگا تو ان عناصر کا نقصان ہوگا جو صرف اور صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہيں اور جن کے مفادات عدم استحکام اور
ڈکٹيٹروں سے وابستہ ہيں۔